حوزہ نیوز ایجنسی| اسلامی تعلیمات و معارف میں تبرا و برائت کی بحث و گفتگو کو ولایت و محبت اہلبیت علیہم السلام کے ہمراہ قرار دیا جاتا رہا ہے اور دونوں مسلمہ اصول پر ہمیشہ برابر سے بحث و تحقیق اور تاکید ہوتی رہی ہے، یہ دونوں اصول ایک دوسرے کی نسبت لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
شیعہ مذہب میں عقیدۂ برائت و تولا کی اہمیت اور فضیلت
اسلامی تعلیمات و معارف میں براءت و تبرا کی بحث و گفتگو کو ولایت و محبت اہلبیت علیہم السلام کے ہمراہ قرار دیا جاتا رہا ہے اور دونوں مسلمہ اصول پر ہمیشہ برابر سے بحث و تحقیق اور تاکید ہوتی رہی ہے، یہ دونوں اصول ایک دوسرے کی نسبت لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اہلبیت علیہم السلام سے عقیدۂ محبت و ولایت دینداری کا اصل رکن ضرور ہے مگر یہ ” تولا “ اور دینداری بھی، دین کے دوسرے اصل ورکن کے بغیر نامکمل ہے اور وہ ہے ” تبرا اور دشمنانِ خدا اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم سے برائت کرنا، جس کے بغیر محبت و ولایت متحقق نہیں ہو سکتی ہے۔
تولی، تبرا بارگاہِ خداوندی میں پرواز کے دو پر ہیں جو قربت کی منزلوں تک پہنچاتے ہیں۔ دشمنانِ خدا سے برائت یعنی خدا، رسول اور اہل بیت طاہرین علیہم السلام کے دشمنوں سے عدم وابستگی کا اظہار، زبان سے الگ اور جدا ہونے کا اظہار اور عمل میں ان کے دین و آئین اور راہ و رسم سے دوری اور بیزاری اختیار کرنا ہے۔
عقیدۂ برائت کی اہمیت و منزلت کسی صاحب بصیرت اور اہل علم و دانش سے پوشیدہ نہیں ہے۔ دین میں اس طرح کے اصل ورکن کے وجود کے بعد اسے کسی بھی طرح سے کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا ہے اور نہ اس کی اہمیت کو گھٹایا جا سکتا ہے۔ آئمہ طاہرین علیہم السلام کی پاکیزہ روایتوں میں اس کا بہت تفصیل سے تذکرہ آیا ہے اور یہ کہ یہ دونوں وظیفے (محبت اہلبیت اور ان کے دشمنوں سے برائت) بندہ صالح، متقی اور حقیقی مؤمن کی روح ہیں، جس کے بغیر نیک عمل، تقویٰ اور ایمان کی کوئی قدر نہیں ہے کیونکہ اس کا براہ راست تعلق خدائے تعالیٰ اور اس کی خوشنودی اور اس کے حکم کی تعمیل سے ہے، یہ عمل ذاتی تسکین قلب یا کسی سے عداوت و دشمنی پر استوار نہیں ہے۔ ہم جس حیثیت سے نماز، روزہ حج کے وظیفے کو انجام دیتے ہیں، جس میں غرض حکم خدا کی بجا آوری، خوشنودی خدا اور تقرب پروردگار کے سوا کچھ نہیں ہوتا اسی طرح اہل بیت علیہم السلام سے محبت اور ان کے دشمنوں سے برائت کی بنیاد امر پروردگار کی اطاعت اور تقرب خدا مقصود ہوتا ہے۔
حکم ابن عتیبہ کہتے ہیں: امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت اقدس میں حاضر تھا حضرت کا بیت مقدس لوگوں سے بھرا ہوا تھا ایک بوڑھا شخص نے ا اپنے عصا کے سہارے دروازہ پر کھڑے ہو کر سلام کیا ” السلام علیک یا بن رسول الله ورحمتہ اللہ و برکاتہ! حضرت نے جواب دیا، پھر اس نے مجمع کی طرف مخاطب ہو کر سلام کیا اور لوگوں نے جواب دیا پھر امام کی طرف رخ کر کے کہنے لگا:
يَا بْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَدْنِنِي مِنْكَ جَعَلَنِي اللهُ فِدَاكَ فَوَاللَّهِ إِنِّي لَا حِبُّكُمْ وَأُحِبُّ مَنْ يُحِبُّكُمْ وَوَاللَّهِ مَا أَحِبُّكُمْ وَ أُحِبُّ مَنْ يُحِبُّكُمْ لِطَمَع فِي دُنْيَا، وَإِنِّي لَأَبْغِضُ عَدُوَّكُمْ وَأَبْرَؤُ مِنْهُ وَ وَاللَّهِ مَا أُبْغِضُهُ وَ أَبْرَأَ مِنْه لِوَثْرٍ كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ وَاللَّهِ إِنِّي لَأُحِلَّ حَلَالَكُمْ وَ أحَرَّمُ حَرَامَكُمْ وَ انْتَظِرُ أَمْرَكُمْ، فَهَلْ ترجولى جَعَلَنِي الله فداك ؟
”اے فرزند پیغمبر! مجھے اپنے قریب جگہ دیجیئے میں آپ پر قربان! خدا کی قسم آپ سے محبت کرتا ہوں اور آپ سے محبت کرنے والوں سے بھی محبت کرتا ہوں، خدا کی قسم آپ اور آپ کے چاہنے والوں سے میری محبت طمع دنیا کی خاطر نہیں ہے اور میں آپ کے دشمن سے دشمنی کرتا ہوں اور ان سے بیزاری اختیار کرتا ہوں اور خدا کی قسم ان سے دشمنی اور بیزاری میری اور ان کے درمیان ذاتی دشمنی وکینہ کی بنا پر نہیں ہے خدا کی قسم جس چیز کو آپ نے حلال کیا ہے اسے حلال اور جسے حرام قرار دیا ہے اسے حرام جانتا ہوں اور آپ کے امر (ظہور ) کا انتظار کر رہا ہوں۔ میں آپ پر قربان، کیا میں اس عقیدہ کے ساتھ امیدوار رہوں اور آپ میرے لئے خیر پاتے ہیں۔
امام نے فرمایا: آؤ، آؤ، میرے قریب آؤ حضرت نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور فرمایا : اے مرد مؤمن، میرے پدر بزرگوار علی بن حسین زین العابدین علیہما السلام کی خدمت میں ایک شخص آیا اور یہی سوال کیا جو تم نے کیا ہے۔ میرے بابا نے فرمایا: اگر تم دنیا سے چلے جاؤ گے تو رسول خدا، امیر المؤمنين، حسن و حسین علی بن الحسین علیہم السلام کے حضور میں شرف یاب ہو گے۔ آنکھیں روشن ہوں گی دل کو قرار آئے گا۔ ملائکہ استقبال کریں گے، یعنی تمہارے لئے خیر ہی خیر ہے اور اگر زندہ رہو گے تو ان چیزوں کا مشاہدہ کرو گے جن سے تمہاری آنکھیں روشن ہوں گی اور ہمارے ساتھ بلند ترین درجے پر فائز ہو گے۔
جب اس مرد مؤمن نے یہ سنا تو فرط محبت سے زار زار رونے لگا اور دوبارہ اپنی قدر و منزلت کو حضرت کی زبان مبارک سے سننے کی خواہش کی۔ حضرت نے پھر بیان فرمایا: وہ سن کر حیرت و تعجب اور مسرت کے عالم میں اللہ اکبر اللہ اکبر کہتا رہا اور گریہ کرتا جا رہا تھا یہاں تک کہ روتے روتے زمین پر گر گیا سارا مجمع دیکھ کر زار زار رونے لگا، امام نے اس کے آنسوؤں کو اپنے دست مبارک سے صاف کیا وہ حضرت کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں لے کر چومنے لگا آنکھوں سے لگا یا جسم سے مس کیا اور خدا حافظ کہہ کر واپس چلا گیا۔ امام نے سب کو مخاطب قرار دے کر فرمایا: اگر کوئی دنیا میں کسی جنتی کو دیکھنا چاہتا ہے تو اس مرد مؤمن کو دیکھ لے۔
حکم بن عتیبہ کہتے ہیں: میں نے کبھی ایسی نورانی اور رقت آمیز نشست نہیں دیکھی تھی۔(روضہ کافی، ص ۷۶، ح۳۰) اس کے جیسی بے شمار روایتیں صحیح سند اور معتبر راوی کے ذریعے کتابوں میں درج ہیں یہاں اُنھیں نقل کرنا مقصود نہیں ہے۔ صرف اس بات کا احساس اور توجہ دلانا مقصد ہے کہ شیعہ عقائد میں عقیدۂ برائت کے بغیر عقیدۂ ولایت اہل بیت نا مکمل اور بے فائدہ ہے، بلکہ دشمنان اہل بیت سے برائت اور ان کے قول و فعل اور افکار و نظریات سے پوری طرح اپنا راستہ جدا قرار دے کر بیزاری اختیار کرنا ہے۔
یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ جس طرح خدا اور رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم اور اہل بیت علیہم السّلام سے محبت اور خدا کی اطاعت اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کے حکم کی بنیاد پر ہے اسی طرح ان کے دشمنوں سے برائت بھی حکم خدا اور رسول کی بنیاد پر ہے۔ برائت کا عقیدہ مادی و دنیوی محبت و نفرت کی بنیاد پر قائم نہیں ہے یہ کسی دور اندیشی یا منفعت و مصلحت کی بنا پر نہیں ہے، بلکہ راہ خدا میں امر پروردگار سے تقرب خدا کی خاطر ہے۔ جس طرح دینداری کے تحقق کے لئے ہدایت حاصل کرنے کی خاطر صاحبانِ ہدایت کی شناخت ضروری و لازم ہے۔ اسی طرح ضلالت و گمراہی اور اس کے اہل کی شناخت بھی ناگزیر ہے۔ محض بدعتوں کو پہچاننا کافی نہیں ہے، بلکہ اہل بدعت کی شناخت بھی ضروری ہے، اسی بنا پر ہی دیندار اور بے دین افراد سمجھ میں آئیں گے۔
جس طرح ہمیں ہر دور میں خطرات و مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے عقیدہ ولایت و محبت اہلبیت علیہم السلام پر ثابت قدم رہتے ہوئے اس کا دفاع کرنا چاہیے اسی طرح اس کے خلاف ہونے والی سازشوں اور حملوں سے آگاہ بھی ہونا چاہیے م۔ ولایت و برائت کے عقیدے کو کمزور کرنے والے اگر صدر اسلام میں موجود تھے اور اس راہ سے اگر شیطان نے گمراہ کرنے کی قسم کھائی ہے تو اس کے شاگرد ہر دور میں وجود پاتے رہیں گے، لہٰذا صدر اسلام کے دشمنانِ اہلبیت علیہم السّلام کی شناخت کے ساتھ ساتھ آج کے دشمنوں اور ان کی سازشوں سے آگاہی ضروری ہے۔
ایک بات عرض کر دینا ضروری سمجھتا ہوں آج امت مسلمہ یقیناً ایک مشترک دشمن کی سازشوں کا شکار ہے جو اسلام و قرآن اور مسلمانوں کو نابود کرنے پر تلا ہوا ہے، جس کی بنا پر عقلی طور سے پوری امت، خواہ شیعہ ہوں یا سنی کے لئے ضروری ہے کہ ایک صف میں کھڑے ہو کر ایک ساتھ مشترک دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے وجود کا دشمنانِ خدا سے برائت اور دفاع کریں، جو وقت کا تقاضا اور اہم ذمہ داری بھی ہے مگر اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ شیعہ مذہب عقیدۂ ولایت و برائت کو جو اس کے مذہب کی اصل و رکن کی حیثیت رکھتا ہے اور جنہیں بالکل اسلام و قرآن اور موت وحیات کی طرح مسلمہ اصول سمجھتے ہیں اُنھیں محض عقیدۂ مخالف کے احترام، یا اتحاد کی صف میں احتمال شگاف کی بنا پر بحث و تحقیق یا مرحلہ تبلیغ و ہدایت میں مجمع عام میں احترام اور منطقی و استدلالی انداز سے پیش نہ کیا جائے اور اس پر ہر طرح کی پابندی عائد کر دی جائے، جب کتابوں یا منبروں سے جوانوں اور بچوں کے تعلیمی و تربیتی مراکز سے صدرِ اسلام کے واقعات و حادثات اور بدعتوں کا تذکرہ ختم کر دیا جائے گا تو آئندہ نسل کی تعلیم و تربیت کی بنیاد کیا ہو گی پھر انھیں حق و باطل میں فرق کہاں سے معلوم ہوگا ؟؟
کیا ہم انھیں پردۂ ابہام میں قرار دے کر خدا و رسول اور اہلبیت علیہم السلام کو راضی کر سکتے ہیں۔ اگر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ حضرت صدیقہ طاہرہ فاطمہ زہر اسلام اللہ علیہا نے دفاع ولایت میں جتنے مظالم برداشت کئے آئندہ نسل کے لئے راہ ہدایت اور صراط مستقیم کا سامان فراہم کرنے کے لئے تھا ورنہ سلام کا جواب نہ دینا، آخر وقت تک غضب کا اظہار کرنا اور وہ گھرانہ جو اپنے دشمن پر بھی مہربان ہو، اس کا ہرگز ہرگز معاف نہ کرنا، دفن میت و جنازہ میں شریک نہ ہونے کی وصیت کرنا، کیا یہ ساری باتیں ہمارے اور آپ کے دلوں میں کسی سے کینہ و میل رکھنے کی طرح ہیں؟؟ ہرگز نہیں! ان کی ناراضگی سے خدا ناراض ہوتا ہے! بلکہ یہ حقائق روز قیامت تک حق و باطل کے درمیان فرق قائم کرنے اور اسے پہچاننے اور راہ ہدایت کی طرف سامان سفر باندھنے کی خاطر ہیں تاکہ امت مسلمہ کی نجات اور کامیابی کا سامان فراہم ہو جائے۔ زیر نظر مضمون میں وظیفہ برائت کا اس کے حقیقی و واقعی اعتبار سے اثرات وبرکات کا جائزہ لیا گیا ہے اور یہ مقالہ اپنے موضوع میں مختصر سہی مگر انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
جاری ہے.....